Sale!

Tesra Snati Inqlab تیسرا صنعتی انقلاب

Original price was: ₨ 900.Current price is: ₨ 700.

جیری رفکن اٹھارہ کتابوں کا مصنف ہے جن کے دنیا کی 35 زبانوں میں تراجم ہو چکے ہیں ۔ اردو میں پہلی بار مطالعے کے لیے پیش ہے

تیسرا صنعتی انقلاب جیرمی رفکن کی ایک بصیرت افروز  کتاب ہے جو جدید دنیا میں توانائی، معیشت، ماحول اور ٹیکنالوجی کے باہمی تعلق کو ایک جامع فکری تناظر میں پیش کرتی ہے۔ مصنف کا بنیادی مقدمہ یہ ہے کہ دنیا ایک نئی صنعتی تبدیلی کے دہانے پر کھڑی ہے — ایسی تبدیلی جو صرف معیشت ہی نہیں بلکہ انسانی طرزِ زندگی، سیاست، اور سماجی ڈھانچوں کو بھی بنیادوں سے بدل دے گی۔

Description

مجلد
صفحات 392
ڈلیوری فری
فون 03328706239

تیسرا صنعتی انقلاب جیرمی رفکن کی ایک بصیرت افروز  کتاب ہے جو جدید دنیا میں توانائی، معیشت، ماحول اور ٹیکنالوجی کے باہمی تعلق کو ایک جامع فکری تناظر میں پیش کرتی ہے۔ مصنف کا بنیادی مقدمہ یہ ہے کہ دنیا ایک نئی صنعتی تبدیلی کے دہانے پر کھڑی ہے — ایسی تبدیلی جو صرف معیشت ہی نہیں بلکہ انسانی طرزِ زندگی، سیاست، اور سماجی ڈھانچوں کو بھی بنیادوں سے بدل دے گی۔

جیرمی رفکن کے مطابق تاریخ میں دو بڑے صنعتی انقلابات پہلے آ چکے ہیں: پہلا انقلاب کوئلے، بھاپ اور ریلوے کے ذریعے، اور دوسرا انقلاب بجلی، تیل، اور ٹیلی فون و آٹوموبائلز کے ذریعے۔ اب، تیسرا صنعتی انقلاب قابلِ تجدید توانائی (renewable energy) اور ڈیجیٹل کمیونیکیشن کے ملاپ سے ابھر رہا ہے، جس کی بنیاد “افقی طاقت” (lateral power) پر ہے — یعنی ایسی طاقت جو مرکزی اداروں کے بجائے عام لوگوں میں تقسیم ہو رہی ہے۔

کتاب میں بتایا گیا ہے کہ جدید ٹیکنالوجی نے توانائی پیدا کرنے، ذخیرہ کرنے، اور شیئر کرنے کے طریقوں کو جمہوری بنا دیا ہے۔ اب ہر فرد، ہر گھر اور ہر ادارہ توانائی کا نہ صرف صارف بلکہ پیدا کنندہ بھی بن سکتا ہے — جیسے کہ سولر پینل، وِنڈ ٹربائنز، اور مائیکرو گرڈ سسٹمز کے ذریعے۔

رفکن خبردار کرتے ہیں کہ اگر دنیا نے اس انقلابی تبدیلی کو اپنانے میں تاخیر کی تو نہ صرف ماحولیاتی بحران بڑھ جائے گا بلکہ معیشتیں بھی پرانی ڈھانچوں میں جکڑی رہ جائیں گی، جو آنے والے وقت میں ناقابلِ عمل ہو جائیں گے۔

مصنف نے خاص طور پر یورپی یونین، جرمنی، چین، اور دیگر خطوں کی مثالوں سے واضح کیا ہے کہ کچھ اقوام اس نئے دور کی طرف تیزی سے بڑھ رہی ہیں، جبکہ باقی دنیا تیل پر انحصار اور کاربن پر مبنی نظام سے باہر نکلنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہے۔

اردو قارئین کے لیے تیسرا صنعتی انقلاب ایک اہم فکری اور عملی دعوت ہے: ہم بحیثیت قوم کب تک پرانے صنعتی نظاموں پر انحصار کرتے رہیں گے؟ کب ہم قابلِ تجدید توانائی، صاف ماحول، اور ڈیجیٹل معیشت کی طرف قدم بڑھائیں گے؟

تیسرا صنعتی انقلاب صرف ایک کتاب نہیں، بلکہ ایک سوچ، ایک سمت اور ایک مستقبل کا خاکہ ہے۔ یہ ہمیں بتاتی ہے کہ اگر ہم نے آج فیصلہ نہ کیا تو کل ہمارے پاس فیصلہ کرنے کا اختیار باقی نہیں رہے گا۔ یہ کتاب ہر اس شخص کے لیے اہم ہے جو نہ صرف حال سے باخبر ہے بلکہ مستقبل کے لیے فکرمند بھی ہے۔

“The Third Industrial Revolution” by Jeremy Rifkin is a visionary and thought-provoking book that presents an integrated perspective on the interconnectedness of energy, economy, environment, and technology in the modern world. The author’s central thesis is that the world stands on the threshold of a new industrial transformation — one that will not only reshape the economy but also redefine how we live, govern, and interact socially.

According to Rifkin, history has already witnessed two major industrial revolutions: the first powered by coal, steam, and railways, and the second driven by electricity, oil, telephones, and automobiles. Now, the third industrial revolution is emerging through the convergence of renewable energy and digital communication, based on the idea of “lateral power” — a form of decentralized power that is no longer held by central authorities but distributed among ordinary people.

The book explains how modern technology has democratized the generation, storage, and sharing of energy. Every individual, household, and institution can now become not only a consumer but also a producer of energy, through tools like solar panels, wind turbines, and micro-grid systems.

Rifkin warns that if the world delays in embracing this revolutionary transformation, the consequences will be dire — from intensified environmental crises to economic stagnation. The traditional carbon-based energy systems will soon become outdated and unsustainable.

The author presents compelling case studies from the European Union, Germany, China, and other regions to show how some nations are already transitioning into this new era, while others remain shackled to fossil fuels and outdated infrastructure.

For Urdu-speaking readers, “The Third Industrial Revolution” offers a timely intellectual and practical call to action: How long will developing nations continue to rely on old industrial models? When will we step toward clean energy, a digital economy, and environmental responsibility?

The Third Industrial Revolution is not just a book — it’s a vision, a roadmap, and a wake-up call. It teaches us that if we fail to act today, we may not have the power to act tomorrow. This book is essential reading for anyone who not only wants to understand the present but also hopes to shape a better future.

Reviews

There are no reviews yet.

Only logged in customers who have purchased this product may leave a review.